ٹیرف کی جنگ میں سب کی نطریں آئی فون پر
ٹیرِف یا درآمدی محصولات وہ مالیاتی چارجز ہوتے ہیں جو حکومتیں کسی بھی ملک سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر عائد کرتی ہیں۔ یہ پالیسی عام طور پر دو مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے: ایک تو مقامی صنعت کو بیرونی مسابقت سے بچانا اور دوسرا حکومت کی آمدن میں اضافہ کرنا۔ لیکن جب ٹیرِف کی پالیسی کو انتہائی سطح پر لے جایا جائے، تو اس کے عالمی تجارت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں اور قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، آئی فون کو اس عالمی تجارتی کشمکش میں ایک علامتی پراڈکٹ یا بینچ مارک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
آئی فون، جو دنیا بھر میں ایک پریمیم موبائل فون کے طور پر جانا جاتا ہے، نہ صرف تکنیکی لحاظ سے جدید ہے بلکہ عالمی سپلائی چین کی ایک بہترین مثال بھی ہے۔ اس کی تیاری میں مختلف ممالک کا کردار ہوتا ہے۔ مثلاً، اس کے چِپس تائیوان سے، اسکرین جنوبی کوریا سے، کیمرہ جاپان سے، اور بہت سا دیگر سامان چین یا دوسرے ایشیائی ممالک سے تیار ہو کر فائنل اسمبلی چین میں کی جاتی ہے۔ اس تمام عمل میں امریکہ کا حصہ آئی فون کے ڈیزائن اور برینڈیگ تک محدود ہے، جبکہ مینوفیکچرنگ کے بڑے مراحل بیرونِ ملک سر انجام دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی فون آج بھی ایک خاص قیمت میں دستیاب ہے، جو بظاہر مہنگا ہے مگر اپنی پروڈکشن لاگت کے لحاظ سے نسبتاً مناسب ہے۔
جب امریکہ میں پروٹیکشنسٹ پالیسیوں کے تحت "امریکہ میں بناؤ” کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو یہ بات زیرِ بحث آتی ہے کہ اگر آئی فون کو مکمل طور پر امریکہ میں تیار کیا جائے تو اس کی قیمت کیا ہوگی۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چین اور دیگر سستے لیبر والے ممالک کی بجائے امریکہ میں مینوفیکچرنگ ہو تو ایک عام آئی فون ماڈل کی قیمت تین ہزار ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ اس کی بنیادی وجہ امریکی لیبر، انرجی اور ٹیکنالوجی کی مہنگی لاگت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسز، ریگولیٹری اخراجات اور ماحولیاتی تقاضے بھی اس قیمت میں شامل ہوں گے، جو موجودہ صورتحال کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔
حال ہی میں کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر امریکہ اور چین یا دیگر ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی بڑھی، اور ٹیرِف کی شرح میں اضافہ ہوا تو آئی فون چالیس فیصد تک مہنگا ہو سکتا ہے۔ یہ اضافہ نہ صرف مینوفیکچرنگ لاگت بلکہ سپلائی چین کی رکاوٹوں، کسٹم چارجز اور درآمدی محصولات کی وجہ سے ہو گا۔ جب کسی ایک جزو پر ٹیرِف عائد ہوتی ہے تو اس کا اثر پوری پراڈکٹ پر پڑتا ہے، اور آخر میں صارف کو وہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
آئی فون کا استعمال بطور بینچ مارک اس لیے بھی ہو رہا ہے کیونکہ یہ وہ پراڈکٹ ہے جو دنیا بھر میں فروخت ہوتی ہے اور جس کی قیمتوں میں ذرا سی تبدیلی بھی عالمی مارکیٹ میں ایک سگنل کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ جب آئی فون مہنگا ہوتا ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ عالمی تجارتی ماحول میں کچھ بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں، خصوصاً امریکہ اور اس کے تجارتی حریفوں کے درمیان۔ اس لیے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ آئی فون تین ہزار ڈالر سے زائد کا ہو جائے گا، تو وہ دراصل یہ اشارہ دے رہا ہوتا ہے کہ اگر ٹیرِف پالیسیوں کو انتہا پر لے جایا گیا تو اس کے اثرات صرف ایک فون تک محدود نہیں ہوں گے، بلکہ پوری دنیا کی معیشت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں صارفین کے لیے نہ صرف مہنگی اشیاء خریدنا مشکل ہو گا بلکہ ٹیکنالوجی کی رسائی بھی محدود ہو جائے گی۔ جب موبائل فونز جیسی بنیادی ضرورتیں لگژری بن جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ معیشت ایک غلط سمت میں جا رہی ہے۔ اس لیے ٹیرِف کے مسئلے کو سمجھنا اور اس پر متوازن پالیسیاں بنانا نہایت ضروری ہے تاکہ صارفین، صنعتکار، اور حکومت سب کا فائدہ یقینی بنایا جا سکے۔
4o