LatestTechnology

ٹیسلا بمقابلہ بی وائی ڈی

بی وائی ڈی یعنی ’’بلڈ یور ڈریمز‘‘ نے جس خاموشی سے اپنا سفر شروع کیا تھا، آج وہ دنیا کی سب سے بڑی الیکڑک گاڑیاں بنانے والی کمپنی بن چکی ہے اور اس نے امریکہ کی مشہور کمپنی ٹیسلا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بی وائی ڈی کا آغاز سن 1995 میں چین میں ایک بیٹری بنانے والی فیکٹری کے طور پر ہوا تھا۔ اُس وقت یہ کمپنی صرف موبائل فونز اور دیگر برقی آلات کے لیے بیٹریاں تیار کرتی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نے برقی گاڑیوں کی صنعت میں قدم رکھا اور دن بدن ترقی کرتی گئی۔

بی وائی ڈی نے صرف تکنیکی ترقی پر زور نہیں دیا بلکہ گاڑیوں کے ظاہری خدوخال اور ڈیزائن کو بھی عالمی معیار کے مطابق بنانے پر کام کیا۔ اس مقصد کے لیے کمپنی نے یورپ میں ایک علیحدہ ڈیزائننگ مرکز قائم کیا جہاں پر یورپی ماہرین، جو کہ دنیا بھر میں اپنے فنی ذوق کے لیے مشہور ہیں، کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یورپی ماہرین کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی وائی ڈی نے اپنی گاڑیوں کے ڈیزائن کو نہایت جدید، دیدہ زیب اور عالمی مارکیٹ کے لیے قابل قبول بنایا۔

بی وائی ڈی کی کامیابی کا ایک بڑا راز اس کی قیمتوں کو قابو میں رکھنا ہے۔ کمپنی نے چین میں مقامی پیداوار پر زور دیا جہاں مزدوری سستی ہے اور خام مال بھی آسانی سے دستیاب ہے۔ مزید یہ کہ بیٹری، موٹر، اور دیگر اہم پرزے خود تیار کیے جاتے ہیں جس سے بیرونی سپلائرز پر انحصار کم ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف لاگت میں کمی آئی بلکہ قیمت بھی عام صارف کی پہنچ میں رہی۔

جب یورپ اور دیگر مغربی ممالک نے چینی مصنوعات پر درآمدی محصولات اور پابندیاں عائد کیں تو بی وائی ڈی نے ان ممالک کے اندر ہی فیکٹریاں لگانے کا فیصلہ کیا تاکہ ان رکاوٹوں سے بچا جا سکے۔ یورپ کے اندر پیداوار کے آغاز سے کمپنی مقامی مارکیٹ کا حصہ بن گئی اور صارفین کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔

بی وائی ڈی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنی توجہ صرف الیکڑک گاڑیوں پر مرکوز رکھی۔ اُس نے کبھی اصل مقصد سے ہٹ کر کسی اور کاروبار میں قدم نہیں رکھا۔ اس کے برعکس، ایلون مسک کی توجہ مختلف شعبوں میں بٹ گئی۔ وہ خلائی منصوبوں، برقی انٹرنیٹ، اور پھر ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی خریداری میں الجھ گئے۔ اس کے بعد ان کے سیاسی خیالات کھل کر سامنے آنے لگے جس سے ان کی کمپنی کی غیرجانبدار ساکھ متاثر ہوئی۔

جب ایلون مسک نے امریکی صدر کے قریب ہونے کے اشارے دیے تو ابتدا میں اس کا فائدہ ضرور ہوا۔ حصص کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور سرمایہ کاروں کا رجحان بڑھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے متنازع بیانات اور سیاسی مداخلتوں نے نقصان پہنچایا۔ مختلف ممالک، خصوصاً یورپ اور کینیڈا میں، عوام نے برقی گاڑیوں کی خریداری میں محتاط رویہ اختیار کیا۔ ٹیسلا کی فروخت میں 45 فیصد تک کمی آئی، اور اس کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا۔

ٹیسلا کی ایک اور بڑی کوتاہی یہ رہی کہ اس نے کئی سالوں سے کوئی نیا ڈیزائن متعارف نہیں کرایا۔ وہی پرانے ماڈلز، وہی اندرونی ساخت، اور صارفین کو نئی ٹیکنالوجی یا جدت کا احساس نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس، بی وائی ڈی مسلسل نئے ماڈلز، جدید ڈیزائن اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کے ساتھ مارکیٹ میں موجود رہی۔

بی وائی ڈی نے حال ہی میں ایک انقلابی چارجنگ ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے جس کے ذریعے گاڑی کو صرف دس منٹ میں اتنا چارج کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ روزمرہ سفر کے لیے تیار ہو جائے۔ اس نئے چارجنگ نظام میں تیز رفتار توانائی کی منتقلی ممکن ہے اور یہ ٹیکنالوجی نہ صرف وقت بچاتی ہے بلکہ بیٹری کی زندگی کو بھی بہتر بناتی ہے۔ اس نظام کو مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے اور یہ مختلف ممالک میں قابل عمل قرار دیا گیا ہے۔

اب دنیا کی نظریں بی وائی ڈی پر ہیں، جو ہر سال نئی جدتوں، سستی قیمتوں اور بہتر معیار کے ساتھ مارکیٹ میں اپنی گرفت مضبوط کرتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ٹیسلا پر سیاسی وابستگی، مہنگے ماڈلز، اور تخلیقی فقدان کی چھاپ لگ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپ، کینیڈا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ٹیسلا کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بی وائی ڈی کو ایک سنجیدہ، جدید اور مستقبل کی کمپنی کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔