یورپ کے مہنگے ترین سٹوروں کی کہانی
اٹلی کے ایک تحقیقاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اٹلی کے مہنگے ترین برانڈ ڈیوغ (Dior) جو بیگ 57 ڈالر میں بنواتی ہے وہ اِس کو 2,800 ڈالر میں فروخت کرتی ہے۔ یعنی پاکستان روپوں میں جو بیگ سولہ ہزار روپے کا بنوایا جاتا ہے وہ تقریبا ً اٹھارہ لاکھ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ یعنی 48 گنا زیادہ قیمت پر اگر صرف اِس چیز کو مدِنظر رکھا جائے تو کمپنی کا منافع سات لاکھ پنیسٹھ ہزار روپے بنتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات مدِنظر رکھنی چاہیئے کہ اِس میں استعمال ہونے والے چمڑے کی قیمت شامل نہیں ہے۔ اِس کے علاوہ بیگ کو ڈیزائن کرنے والی ٹیم کا خرچہ ،ٹرانسپورٹ ، مہنگے مہنگے سٹوروں کا خرچہ اِس میں شامل نہیں ہے۔ مگر اعتراض یہ اُٹھایا جا رہا ہے کہ ان مہنگے شوروم میں بِکنے والا سامان کیا واقعی ہی بہت مہنگا ہوتا ہے تو اِس کا جواب نفی میں ہوتا ہے۔ اصل میں لوگ برانڈ کی قیمت ادا کرتے ہیں۔
ان کمپنیوں پر یہ بھی الزام لگتا ہے کہ کیوں کے یہ کمپنیاں یہ سامان غیر ممالک سے بنواتی ہیں اِس لیئے وہاں مزدوروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ انہیں انتہائی کم قیمت ادا کی جاتی ہے اور زیادہ تر کام کرنے کا ماحول بھی اتنااچھا نہیں ہوتا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ برانڈ اپنے کام کی قیمت وصول کرتے ہیں جوزیادہ ہوتی ہے ۔ مگر یہ برانڈ جو میٹریل استعمال کرتے ہیں وہ خاصہ مہنگا ہوتا ہے۔ ان چیزوں کا ڈیزائن بھی بہترین ٹیم کرتی ہے جو بہت ہی اعلیٰ پائے کی ہوتی ہے۔ بعض اوقات ان کے ڈیزائن پر خاصہ وقت صرف ہوتا ہے۔ پھران کو بنانے والے کاریگر بھی بہت ماہر ہوتے ہیں۔ اور وہ اپنے ہنر کی خاصی قیمت وصول کرتے ہیں۔ اکثر ان اشیاء کو بنانے میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا جاتاہے۔ پھر جن دُکانوں میں انہیں فروخت کیا جاتاہے وہ مہنگے ترین علاقوں میں ہوتے ہیں اور ان کا عملہ بھی بہت تربیت یافتہ اور اچھی تنخواہ پر کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان تمام چیزوں کی وجہ سے قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے پھر جو لوگ ان سٹوروں سے خریداری کرتےہیں وہ اِس طرح کی جمع تفریق نہیں کرتے۔ ان کی سوسائٹی میں یہ صرف بات اہمیت رکھتی کہ فلاں کابیگ کس برانڈ کا ہے۔