پاکستان میں گاڑیاں مہنگی کیوں؟
پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں جس طرح لوٹ مار ہو رہی ہے اِس کی مثال شائد ہی کسی اور ملک میں ملتی ہو۔ اِس لوٹ مار کی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں جو گاڑیاں بنانے والوں اور گاڑیاں بیچنے والے دونوں کو لُوٹ مار کا راستہ فراہم کرتی ہیں۔ اِس کے علاوہ انویسٹر کا ایک بہت بڑا گروپ ہے جو ان کےساتھ ملا ہوا ہے۔ ان تین گروپوں کی ملی بھگت سے نہ صرف حکومت کو ہر سال اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے بلکہ عوام کو ہر سال غیر معیاری گاڑیاں انتہائی مہنگے داموں خریدنی پڑتیں ہیں۔ اِس کے علاوہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ گاڑیوں ان کے سپئیر پارٹس اور ٹائیر پر خرچ ہوتے ہیں۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں صارف کو اِس طرح لوٹا جاتا ہے۔ پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں انتہائی ذیادہ ہیں- پاکستان میں 800 سی سی گاڑی چوبیس لاکھ روپے کی فروخت ہورہی ہے۔ یہ ہی گاڑی بھارت میں تین لاکھ کی ہے جو پاکستانی گیارہ لاکھ روپے بنتے ہیں۔ بھارت میں 800 سی سی کی کچھ اور ماڈل اِس سے بھی کم قیمت پر فروخت ہورہے ہیں۔
1980ء کی دہائی میں جب ان کمپنیوں کو پاکستان میں گاڑیاں بیچنے کی اجازت دی گئی تو ساتھ یہ شرط بھی لگائی گئی تھی کہ یہ کمپنیاں پانچ سال میں گاڑیوں کے 80 فیصد پارٹس پاکستان میں بنائیں گی۔ آج چالیس سال گُزرنے کے بعد یہ کمپنیاں اور باقی کی کئی کمپنیاں ذیادہ تر پُرزے باہر سے لا کر یہاں اسمبلڈ کرتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اگر مکمل بنی بنائی گاڑی باہر سے منگوائی جائے تو بعض اوقات وہ پارٹس کی شکل میں لائی گئی گاڑی سے سستی پڑتی ہے۔ پاکستان میں اسمبل کرنے کا ڈرامہ کم از کم صارف کے مفاد میں نہیں کیوں کہ اِس سے قیمت بڑھ جاتی ہے اور معیار بھی برقرار نہیں ریہتا یہ صرف اس صورت میں فائدہ مند ہے جب ذیادہ تر پارٹس پاکستان میں بنائیں جائیں۔
حکومت نے ملک میں گاڑیاں اسمبلڈ کرنے والی کمپنیوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا مگر اِس کے بجائے کہ اس سے پاکستانی معیشت اور پاکستانی عوام کو فائدہ پہنچتا یہاں لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہو گیا۔ ہرگاڑی پر اچھا خاصہ اون وصول کرنا شروع کر دیا ۔ ان کمپنیوں کے ڈیلروں نے آگے انویسٹر کا ایک گروپ بنایا ہوا تھا ۔ یہ لوگ گاڑیاں بُک کرتے اور اس سے مصنوعی قلت پیدا کر کے اچھا خاصہ اون وصول کرتے دُنیا میں یہ کہیں نہیں ہوتا کہ لوگوں سے چھ ماہ سےایک سال پہلے ہی گاڑی کی قیمت وصول کر لی جاتی ۔
ان گاڑیوں کا معیار بھی بین الاقوامی معیار سے کم ہے۔ اِس وقت پاکستانی مارکیٹ میں بکنے والی زیادہ تر گاڑیاں پرانے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی کی ہیں۔ جو ماڈل باہر تین چار سال پہلے ختم ہو گیا اِس کو پاکستان میں لایا جاتا ہے۔ انجن سے لے کر سینسر اور حفاظتی سہولیات جیسے کہ ائیر بیگ وغیرہ پاکستانی گاڑیوں میں مُشکل سے ہی ملتے ہیں۔ حکومت نے ماضی میں جب بھی باہر سے گاڑی درآمد کرنے کی اجازت دی تو لوگوں صارفین کی ایک بڑی تعداد نے باہر کی گاڑیوں کو ترجیح دی۔ اکثریت کی یہ ہی کوشش تھی کہ وہ جاپانی گاڑی لیں کیونکہ اِس میں پیٹرول کا خرچہ کم ہوتا ہے اور ان کی گاڑیوں کا معیارپاکستانی گاڑیوں سے بہت بہتر ہوتا ہے۔
سپئیر پارٹس کی مارکیٹ میں شاید اس سے بھی زیادہ لوٹ مار ہوتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق سب سے زیادہ منی لانڈرنگ اِس ضمن میں ہوتی ہے۔ اور اربوں ڈالر باہر بجھوائے جاتے ہیں ۔ پاکستان میں بے تحاشہ فیکٹریاں چھوٹے پیمانے پر پارٹس کا کام کررہی تھیں مگر ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے باہر سے درآمد کی اجازت دے کر ان کے لیے مشکلات بڑھا دیں گئیں۔ مہنگی بجلی، مہنگا خام مال، ٹیکسوں کی انتہائی شرح لیبر کے مسائل سے لے کر حکومتی اداروں کا تلخ رویہ پاکستان میں صنعتی ترقی کے راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک حکومت ملک و قوم کے مفاد میں پالیسیاں نہیں بنائے گی اِس شعبہ میں لوٹ مار جاری رہے گی۔ اگر حکومت ملکی مفاد میں پالیسی بنائے اور اِس کو صحیح معنوں میں لاگو کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں یہ صنعت فروغ نہ پا سکے۔ گاڑیوں کی صنعت میں ترقی سے نہ صرف پاکستانی عوام کو فائدہ ہو گا بلکہ ملک کو اربوں ڈالر کی بچت بھی ہو گی۔ ملائشیاء جیسے چھوٹے ملک کی بھی اپنی کار کمپنی ہے اور یہ گاڑیوں کے سپیئر پارٹس بنانے والا ایک اہم ملک ہے۔ پاکستان کی آبادی بچیس کروڑ ہے ہم اس صنعت کو کیوں فروغ نہیں دے سکتے؟