باقی کھیلوں کی طرح اب کرکٹ بھی تباہ حالی کا شکار
اگر چہ دُنیا بھر میں کھیل ایک بہت بڑی صنعت کا درجہ رکھتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں کھیل بھی تباہ حالی کا شکار ہورہے ہیں۔ فٹ بال کا کھیل جو پاکستان میں خاصی مقبولیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں ہاکی سکواش اور کرکٹ مقبول ترین کھیل رہے ہیں اور پاکستان کا شُمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا رہا ہے مگر ہاکی اور سکواش کو تو پہلے ہی ایک منظم سازش کے تحت ختم کردیا گیا ہے۔ اب کرکٹ کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی ہمیشہ مایوس کُن رہی ہے۔ اِس ٹورنامنٹ میں جس بُری طرح سے پاکستان دو مرتبہ انڈیا سے اور پھر آسٹریلیا سے ہارا ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔ افغانستان سے شکست کے بعد پاکستان کرکٹ تباہی کے دہانے پر آکھڑی ہوئی ہے۔ اوراب کرکٹ کا مستقبل بھی تاریک نظر آ رہا ہے۔
اسمیں کوئی شک نہیں کے سلیکشن کمیٹی سمیت کپتان، کوچ اور کھلاڑی اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جس ملک نے جاوید میانداد ، سعید انور، عامر سہیل، سلیم ملک، اعجاز احمد، انضمام الحق ، وقار یونس، محمد آصف، محمد عامر اور شعیب اختر، عبد القادر، مشتاق، ثقلین اور یاسر شاہ جیسے کھلاڑی دیئے ہوں۔ وہاں یہ کہا جائے کے ٹیلنٹ کی کمی ہے۔ موجودہ کھلاڑیوں کی بات کریں تو بابر اور شاہین آفریدی بھی تو پاکستانی ہیں۔ نئے کھلاڑیوں میں عبداللہ شفیق، نسیم شاہ، سعود شکیل، سیم ایوب اور ان جیسے کئی اور کھلاڑی بھی ہیں جو بے انتہاء ٹیلنٹ رکھتے ہیں اور اگر موقع دیا جائے تو وہ کرکٹ کے میدان میں اپنی دھاک بیھٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے کے انڈیا اور حتی کے افغانستاں میں تو اعلی پایہ کے کھلاڑی نکل رہے ہیں مگر پاکستان کی پچیس کروڑکی آبادی میں اب اس معیار کے کھلاڑی نکلنا بند ہوگے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کے کرکٹ نااہل اور غیر پیشہ ور لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جو صرف اپنی ذات سے مخلص ہیں۔ کرکٹ بورڈ کے ذیادہ تر عہدے دار سفارش پر لگائے جاتے ہیںں ۔
کرکٹ کو تباہ کرنے میں لابیز کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پاکستا ن کرکٹ کراچی، لاہور اور پشاور کی لابیز میں بٹا ہوا ہے۔ ان لابیز کی کشمکش نے نہ صرف کرکٹ بلکہ باقی کھیلوں کو بھی تباہ کیا ہے۔ پاکستان میں غیر معیاری وکٹوں کی وجہ سے اچھے کھلاڑی پیدا نہیں ہو رہے۔ پاکستا ن میں ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار بھی کوئی اچھا نہین ہے اور یہ اقربا پروری اور پرچی مافیا کے کنڑول میں ہے۔ جاوید میانداد نے ایک وقت میں ڈومیسٹک کرکٹ سے ہٹ کر کھلاڑی ڈھونڈنے کی پالیسی بنائی تھی اور یہ تجربہ بہت کامیاب رہا تھا۔ انضمام اور وسیم اکرم اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ اب بھی ایسا کوئی سسٹم بنانا چاہیے۔
کرکٹ کے کھیل میں اب بہت تبدیلیاں آگئی ہیں جبکہ پاکستان ابھی بھی بیس سال پُرانی کرکٹ کھینے پر مُصر ہے۔ کئی پاکستانی کھلاڑیوں پر الزام ہے کے وہ صرف اپنے ریکارڈ کے لیے کھیلتے ہیں اور ان کی اننگز سے پاکستان نہیں جیت سکتا۔ پاکستان کے خلاف افغانستان نے جدید کھیل کھیلا اور آسانی سے میچ جیت لیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کے پاکستان میں جدید سُوچ کے لوگوں کو لایا جائے۔ فٹنس کا ہونا بھی کھیل میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط ٹیم بہتر نتیجہ دیتی ہے۔ افغان ٹیم کی فٹنس ہماری ٹیم کی نسبت بہت بہتر ہے۔ جب کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی فٹنس کا لیول بہت خراب ہے۔
آخر میں پاکستان کو کچھ ایسی چیزوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جس کو ہم ہمیشہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور بہانہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ مگر حقیقت ہے کہ جسٹس قیوم کی انکوائری سے لے کراب تک۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ لوگ ابھی بھی کھلاڑیوں کو بلیک میل کر کے اور ڈرا دھمکا کراپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ محمد آصف، محمد عامر ، شرجیل اور بہت سے انتہائی شاندار کھلاڑیوں کا مستقبل ان لوگوں نے تباہ کیا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس جانب مسلسل توجہ دی جائے اور کرکٹ سے سٹہ بازی کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ ڈومیسٹک کرکٹ سے لیک جہاں جہاں بھی یہ لعنت موجود ہے اسکو دور کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کے سٹہ بازون نے مینجمنٹ سے لیکر کھلاڑیوں اور پھر تجزیہ کاروں میں بھی اپنے ایجنٹ چھوڑے ہوئے ہیں ان کا قلعہ قمع کرنا بہت ضروری ہے وگرنہ پاکستانی کھلاڑیوں کا کرئیر یوں ہی خراب ہوتا رہے گا۔
پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اب اہل، مخلص اور ایماندار لوگون کا تقرر کیا جائے اور کرکٹ میں خود بخود بہتری آنا شروع ہوجائے گی۔