LatestPakistan

ہمارئے انتہائی گھمبیر معاشی مسائل

ہمارے ملک میں یہ بحث اکثر سُنی جاتی ہے کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے جب کہ ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں اور ہمارا  غربت سے نکلنا آسان نہیں۔ میرے خیال میں دونوں کی بات ٹھیک بھی ہے اور غلط بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 25 کروڑ کی آبادی کو پالنے کے لیے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں اور اس وقت صورتحال بہت گھمبیر ہے۔ پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے اور حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا جائے۔ لیکن اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو ماضی میں ایسی پالیسیاں بنائی گئیں۔ جس کی وجہ سے آج ہم یہاں کھڑے ہیں۔ اگر آبادی کنٹرول کرنے کے لیے کوشش کی جاتی تو آج ہماری آبادی بھی بنگلہ دیش کی طرح بیس کروڑ سے کم ہوتی ۔ جب بنگلہ دیش الگ ہوا تو اس کی آبادی مغربی  پاکستان سے بھی زیادہ تھی۔ دوسری بڑی غلطی جو دانستہ طور پر کی گئی وہ معیاری تعلیم نہ ہونا تھا۔ ہمارا تعلیمی معیار دنیا کے مقابلے میں تو ناقص ہی ہے۔ بلکہ یہ انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش سے بھی گیا گزرا ہے۔ جگہ جگہ نجی شعبہ میں سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں کھول کر دھڑا دھڑ ڈگریاں بانٹی جا رہی ہیں۔ مگر بچوں کو کوئی ہنر اور قابلیت نہیں سکھائی جا رہی۔ سالوں سال بچے ڈگریوں کے لیے بھاگے پھرتے ہیں اور اس کے بعد مارکیٹ میں ان کو کوئی ملازمت نہیں ملتی ۔ ان میں سے جو بچے ملازمت کے لیےباہر چلے جاتے ہیں ان کو وہاں پھر سے کوئی ہنر سیکھنا پڑتا ہے یا اپنے شعبے میں مزید تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ وہاں کے سٹینڈرڈ تک پہنچ سکیں۔ آج دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں ہنر مند افراد کی کمی ہے ۔ اگر ہمارا تعلیمی معیار اچھا ہوتا تو  بڑی تعداد میں پاکستانی ملازمت کے لیے ان ممالک میں جا سکتے تھے۔

تیسری بڑی غلطی پاکستان کا توانائی کے شعبہ میں ترقی نہ کرنا تھا۔ پاکستان میں پانی وافر مقدار میں موجود تھا ۔ مگر اس کا استعمال نہ کیا گیا اور آہستہ آہستہ انڈیا سے پاکستان کی نااہلی کا فائدہ اُٹھا کر پاکستان کے دریاؤں پر کئی ڈیم بنا دئیے ۔ پاکستان پانی کے ذریعے آسانی سے ساٹھ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ ابھی بھی پاکستان سالانہ 22 ارب ڈالر کا پانی ضائع کر رہا ہے۔ اگر ڈیم بن جاتے تو پاکستان اپنی زرعی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ کر سکتا تھا۔

پاکستانی صنعت کو فروغ نہ دینا ماضی کی حکومتوں کی غلطی تھی جو کہ دانستہ طور پر کی گئیں پاکستان جو ساٹھ کی دہائی میں ایشیاء کی چوتھی بڑی معیشت تھی آج تباہی کے  دہانے پر کھڑی ہے ۔ کئی حکومتوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے پاکستان ایک درآمدی ملک بن گیا اور ہر چیز باہر سے درآمد کی جانے لگی ۔ پچھلے چند دہائیوں میں کئی کاروبار بند ہو کر بنگلہ دیش ، کمبوڈیا ور ویت نام کی طر ف منتقل ہو گئے۔ پاکستان میں کاروبار کو مشکل سے مشکل بنا دیا گیا۔ مہنگی بجلی، حکومتی پالیسیاں مہنگے ٹیکس  اور بے ایمانی کے کلچر نے پاکستان میں صنعت کاری کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔

لا قانونیت ، دہشت گردی اور انصاف کی عدم فراہمی کے باعث پاکستان ایک مشکل ملک بن چکا ہے۔ بے ایمان اور بے ضمیر لوگوں  کے لیے ہر طرف راستے کُھلے ہوتے ہیں۔ جب کہ ایمانداری سے پیسے کمانا انتہائی مشکل ہے۔

پاکستان میں تعلیم و تربیت کے شعبے کو فروغ نہ ندیان بھی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ پاکستان مین کام کرنے والے افراد کا رویہ کوئی اتنا اچھا نہیں ہے۔ کام چوری اصل میں ایک قابل تسخیر  رویہ بن گیا ہے جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ قوم کے اس رویہ کو تبدیل کرنا اب اتنا آسان کام نہیں رہا ۔

آ۔ پاکستان میں اس مسئلہ پر ہمیشہ سے ہی حکومت اور تاجر برادری کے درمیان  اختلافات رہا ہے۔ اگر حقیقت پپسندی  سے اِس مسئلہ پر غور کیا جائے تو تاجر برادری کا احتجاج ٹھیک نہیں ہے دنیا کے پیشتر ممالک میں مارکیٹیں سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی بند کر دی جاتی تھیں۔ انڈیا میں مغرب کے ساتھ ہی تمام مارکیٹوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں  تو یہ مارکیٹیں دفتری اوقات کے ساتھ چلتی ہیں۔ ان ممالک میں نہ تو بجلی کی شدت قلت  ہے اور نہ ہی پاکستان کی طرح ڈالر کی کمی کا بُحران ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں پہلے سے ہی اس بات کی پیش بندی کرائی جاتی ہے کہ وسائل کا بے دریغ استعمال نہ ہو۔ مگر پاکستان جیسے ملک میں جس طرح وسائل کا ضائع کیا گیا اور اب بھی کیا جا رہا ہے۔ انتہائی قابل افسوس ہے ۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ مارکیٹیں جلد بند کرنے سے پاکستان کو توانائی کی مد میں ایک ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ یہا یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکتان سالانہ اٹھارہ ارب ڈالر، پیٹرول گیس اور کوئلہ کی مد میں خرچ کر رہا ہے۔ اس مد میں کسی بھی طرح کمی کی جائے وہ پاکستان کی معیشت کے لیے بہت ضروری ہے۔ پاکستان کا مسئلہ ڈالر کی کمی ہے۔ جس کے لیے پاکستان کو برآمدات میں اضافہ کے ساتھ درآمدات میں کمی کی ضرورت ہے۔ ماضی کی حکومت نے جس طرح صنعتی شعبہ کو نظر انداز کیا اور غیر ملک مصنوعات کی بے دریغ درآمدات کی اجازت دی۔ اس نے ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ٹھیک کرنے کے لیے سب قربانی دیں۔