پی آئی اے ملکی وسائل پر ایک بوجھ
عبوری حکومت نے پی آئی اے کو 23 ارب روپے دینے سے انکار کر دیاہے ۔ جس کی وجہ سے پی آئی اے شدید مشکلات کا شکار ہے۔ پی آئی اے کے31 میں سے 16 جہاز اس وقت کام کر رہے ہیں۔ باقی کے طیارے لیز کی عدم ادائیگی یا خرابی کے باعث کھڑے ہیں۔ پی آئی اے غیر ملکی ائیر پورٹس کی سروسز کے ادائیگی میں بھی مسائل کا شکارہے۔ جس کی وجہ سے بعض خلیجی ممالک میں پی آئی اے کے جہاز روکنے کی اطلاعات ہیں۔ اور ادائیگی کے بعد ہی جہاز کو اُڑانے کی جازت دی جارہی ہے۔ اب پی آئی اے بنکوں سے 17 ارب کا قرضہ لینے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ مگر تمام مسائل وہیں موجود ہیں اور تمام قرضے اور ادائیگیاں جو پی آئی آے نے کرنی ہیں وہ اصل میں حکومت پاکستان پر بوجھ ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سارے حالات کی ذمہ داری پی آئی اے پر عائد ہوتی ہے۔ پی آئی اے میں سالوں سے سیاسی بنیادوں پر بھرتی کی جا رہی ہے۔ پی آئی اے کے عملہ کے بارےمیں تمام لوگوں کی یہ رائے ہے کہ عملہ غیر پروفیشنل ہے۔ اِس کے علاوہ عملہ کی تعداد ائیر لائن کی صنعت کے حساب سے بہت زیادہ ہے۔ پی آئی اے اور اسٹیل مل دو ایسے ادارے ہیں جہاں نااہلی اور کرپشن کے باعث قوم کو ہر سال اربوں روپے دینے پڑتے ہیں۔ مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور باقی اداروں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ ملکی وسائل کو ایسے اداروں پر خرچ نہیں کیا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کے قلیل قومی وسائل کو سوچ سمجھ کر استعمال کیا جائے اور ان کے بے دریغ ضیاع سے احتراز کیا جائے۔ پاکستان میں کئی پرائیوٹ ائیر لائنز ہے جن کے ذریعہ فضائی سفر کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی روٹس پر بھی غیر ملکی ائیر لائن کے ساتھ مشترکہ فلائیٹ چلائیں جا سکتیں ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پی آئی اے پیشہ وارانہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ باقی شعبوں میں بھی بہت پیچھے ہے۔ اور اس کو بہتر بنانے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
ماضی کے تجربات اور کاوشوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے تمام فیصلہ ساز اِس بات پر متفق ہیں کہ پی آئی اے میں موجودہ حالات میں بہتری کی اُمید نہیں ہے شایدیہ ہی وجہ ہے کہ عبوری حکومت نے اِس ادارے کو پرائیوٹیزکرنے کا فیصلہ کر لیاہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پی آئی اے کو مسلسل پیسے دینے سے بہتر ہے کہ نجی شعبہ کو ایسی رعایتیں دی جائیں جس سے وہ ملک کے تمام حصوں میں فلائیٹ چلا سکیں۔ اِس سے دور دراز علاقوں میں رہنے والے افراد کو فضائی سفر کی سہولتیں میسر رہیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو غیر معیاری سروس سے چھٹکارہ مل جائے گا۔ اور ملک کو مسلسل ہونے والے نقصان سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔