سری لنکا کا نہ ختم ہونے والا معاشی بُحران
سری لنکا کی معاشی بدحالی اس وقت شروع ہوئی جب اس کے فارن کرنسی کے ذخائر ختم ہو گئے اور سری لنکا قرضوں کی ادائیگی نہ کرسکا اور اسکے ساتھ ساتھ درآمدات بھی ختم ہوگئی۔ اس بحران نے سری لنکا کو ایک ایسے بھنور میں ڈال دیا جس سے باہر نکلنا آسان نہ تھا۔ ملک میں مہنگائی کی شرح 70 فیصد تک بڑھ گئی ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کی آبادی کی ایک بڑے حصے کو اب اپنا پیٹ پالنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
کسان کھاد اور بیج قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کی وجہ سے خریدنے کے قابل نہیں ہیں اسکے علاوہ حکومت ان اشیاء کو ضرورت کے مطابق درآمد کرنے کے قابل نہیں تھی۔ سری لنکا کی معیشت کا زیادہ انحصار سیاحت پر ہے مگرCOVID-19 کی وجہ سے سیاحت بڑی حد تک ختم ہو گئی تھی۔ غیر ملکی ذخائر کا بنیادی ذریعہ سیاحت ہی تھا۔
سری لنکا کا مسئلہ معیشت کا متوازن نہ ہونا ہے۔ اگرچہ، سری لنکا میں خواندگی کی شرح خطہ کے باقی ممالک سے بہتر ہے مگر ملازمت کے مواقع کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر لوگ بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ماضی کی حکومت کا انفراسٹرکچر کے بڑے بڑے پراجیکٹس شروع کرنے کا فیصلہ انتہائی غلط جس کی سری لنکا کی حکومت کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح، یوکرین کی جنگ کی وجہ سے قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کی وجہ سے سری لنکا کی معیشت خوراک اور ایندھن کی بین الاقوامی منڈی میں بھاری قیمت ادا کرنے سے قاصرہے۔
اب سری لنکا کے لوگ بڑی تعداد میں بیرون ملک جا رہے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق سعودیہ، ملائیشیا اور جاپان ہنرمند افراد کو کام کے لیے ویزے دے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ان افراد کے لیے اچھا ہوگا اور اس سے سری لنکا کی معیشت کو وقتی فائدہ پہنچے گا مگر لمبے عرصے کے لیے اس سے ملک کو نقصان ہو گا کیونکہ ملک میں ہنرمند لوگوں کی کمی ہوگی۔ سری لنکا کی معیشت ابھی بھی شدید معاشی بحران کی ذد میں ہے اور مستقبل قریب میں اسمیں بہتری کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ خصوصاً جب دنیا میں کساد بازاری کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک کا المیہ ہے کہ ان کے لیڈر جھوٹی کہانیوں سے اپنے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ سری لنکا کے لوگ خطے میں پڑہے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ خاصے شائستہ سمجھ جاتے ہیں۔ تاہم سری لنکا کے پالیسی سازوں نے لمبی مدد کی منصوبہ بندی نہیں کی اور ملکی معیشت سیاحت، چائے اور دیگر زرعی اشیاء پر ہی انحصار ہی کرتی رہی۔ یہ وہ دھوکا ہے جس میں تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کو رکھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن ممالک نے اپنے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے مقامی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کو ترجیح دی اور صنعتی شعبہ کو ترقی دی یہ ممالک ہی بہتر ہیں۔
پاکستان کو بھی اسی طرح کے مسائل درپیش ہیں جہاں توانائی کا شعبہ ہی سب سے ذیادہ مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ تجارتی خسارہ انتہائی ذیادہ ہے ان دو وجوہات کی وجہ سے پاکستان کو بھی سری لنکا جیسی معشیتوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو تھر کے کوئلے سے کئی دہائیوں تک 100,000 میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے، اسکے علاوہ پانی کے ذریعے ہم 60,000 میگاواٹ اور شمسی توانائی کے ساتھ ساتھ ہوا اور جوہری توانائی کے ذریعے لامحدود بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ تاہم، بدقسمتی سے ہم اسوقت بمشکل 25،000 بجلی پیدا کر رہے ہیں اور اسمیں بھی ساٹھ فیصد بجلی درآمد کیے ہوئے مہنگے ایندھن کا استعمال ک_____________________ جس میں ڈیزل، کوئلہ اور گیس شامل ہے۔ پاکستان میں صنعت کاری کے بے پناہ مواقع ہیں۔ ہمارے پاس محنتی اور تخلیقی صلاحیتوں والے صنعت کار بھی موجود ہیں لیکن پچھلے پچاس سالوں سے ہمیں بھی یہ کہانی سُنائی جا رہی ہے کہ ہمیں صرف زراعت اور سیاحت پر توجہ دینی چاہیے جو کہ انتہائی مضحکہ خیز ہے، ہم کبھی بھی 25 کروڑ لوگوں کا پیٹ پالنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس ہی سوچ کی وجہ سے ہماری فی کس آمدنی دنیا میں سب سے کم ہے اور بیروزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے اور اسی سوچ کی وجہ سے ہماری معشیت مسلسل تباہی کے دہانے پررہتی ہے۔