پاکستانی قوم – کتابیں بمقابلہ شوارما
لاہور میں ایک حالیہ کتاب میلے کا واقعہ اس بات کا غمازی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتابوں کے ساتھ ہمارا رویہ کس حد تک افسوسناک ہے۔ اس کتاب میلے میں صرف 35 کتابیں فروخت ہوئیں، جبکہ 800 شوارمے بیچے گئے۔ یہ موازنہ ہماری قوم کی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے، جہاں علم اور کتابیں پس پشت ڈال دی گئی ہیں اور لوگ زیادہ تر فوری اور وقتی خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کی ہمارا معاشرہ اسوقت تنزلی اور افراتفری کا شکار ہے۔ انتہا پشندی عام ہے اور ہر کوئی دوسرے کی پگڑی اچھال کر فخر محسوس کرتا ہے۔ کوئی وقت تھا کے لاہور شاعروں اور ادیبوں کا شہر سمجھا جاتا تھا۔
کتابیں کسی بھی قوم کی ترقی اور شعور میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پڑھنے کی عادت کو انسانی ذہن کی تربیت، سوچنے کی صلاحیت، اور تجزیاتی مہارتوں کو نکھارنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ معاشروں میں کتاب پڑھنے کی اہمیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اور یہ ان کے زوال کا ایک اہم سبب بن سکتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں پڑھنے کی عادت کی بنیاد پر معاشروں کا موازنہ کیا جائے تو حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں۔ وہ معاشرے جہاں کتاب پڑھنا ایک عام سرگرمی ہے، جیسے کہ امریکہ، یورپ، اور مشرق بعید کے ممالک، وہاں لوگوں میں علمی سطح اور شعور زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان جیسے ممالک میں کتاب بینی کو ایک سنجیدہ سرگرمی نہیں سمجھا جاتا، اور اس کا اثر مجموعی سماجی، معاشی اور ذہنی ترقی پر بھی ہوتا ہے۔
پڑھنے کی عادت رکھنے والی معاشرتیں زیادہ ترقی یافتہ، تعلیمی اور ذہنی طور پر مضبوط ہوتی ہیں۔ وہ قومیں جن میں کتاب بینی کا رجحان زیادہ ہے، وہاں کے لوگ بہتر طور پر سوچنے، تجزیہ کرنے، اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان معاشروں میں نئی اختراعات اور جدت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور لوگ عالمی مسائل کو سمجھ کر ان پر غور و فکر کرتے ہیں۔ دوسری جانب، وہ معاشرتیں جہاں کتاب پڑھنے کی عادت کم ہے یا سرے سے موجود ہی نہیں ہے، وہاں ذہنی پسماندگی، فکری انتشار اور محدود نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں تعصب، غیر معقولیت اور غیر منطقی سوچ کا غلبہ ہوتا ہے، جو اجتماعی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
تعلیم یافتہ معاشرتیں نہ صرف ٹیکنالوجی، سائنس، اور معیشت میں ترقی کرتی ہیں، بلکہ وہاں کے لوگ اخلاقی اور سماجی اقدار کے بھی زیادہ پابند ہوتے ہیں۔ تعلیم یافتہ معاشرتوں میں لوگوں کو معاشرتی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بہتر آگاہی ہوتی ہے اور وہ اپنے فیصلے زیادہ دانشمندی سے کرتے ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ معاشرتیں اکثر قدامت پسندانہ نظریات کی قید میں رہتی ہیں، جہاں نئی تبدیلیوں کو اپنانا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں جہالت اور غلط فہمیاں عام ہوتی ہیں، جو آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
اکثر لوگوں کے درمیان ایک بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ پڑھنا صرف تعلیمی کتابوں تک محدود ہے۔ حالانکہ ادب کا مطالعہ تعلیمی کتابوں سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ تعلیمی کتابیں مخصوص معلومات کی فراہمی پر مبنی ہوتی ہیں، جب کہ ادب انسانی تجربات، جذبات اور ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔ ادب کا مطالعہ انسان کو دنیا کی گہرائیوں کو سمجھنے، ہمدردی، اخلاقیات اور تخیل کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔ تعلیمی کتابیں ضروری ہیں، لیکن ادب کا مطالعہ زندگی کو زیادہ مکمل اور گہری نظر سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں کتاب بینی کا رجحان بہت کم ہے، جبکہ امریکہ، یورپ اور مشرق بعید کے ممالک میں کتاب پڑھنے کی عادت لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ ان ممالک میں کتابوں کی بڑی بڑی دکانیں، لائبریریاں اور کتاب میلوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ لوگ ہر موضوع پر کتابیں پڑھتے ہیں اور نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کا شوق رکھتے ہیں۔ ان معاشروں میں کتابوں کو علم کی کنجی سمجھا جاتا ہے اور لوگ کتاب پڑھنے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں لوگ کتابوں کے بجائے موبائل فونز، سوشل میڈیا اور فوری تفریح کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ فرق صرف علم کی سطح پر نہیں، بلکہ مجموعی معاشرتی ترقی میں بھی نظر آتا ہے۔
پڑھنے کی عادت انسان کے شعور اور معاشرتی ترقی کا اہم حصہ ہے۔ وہ قومیں جو کتاب بینی کو ترجیح دیتی ہیں، دنیا کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھتی اور حل کرتی ہیں۔ پاکستان کو بھی اس سمت میں قدم اٹھانا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں اور ایک تعلیم یافتہ، فکری اور ترقی پسند قوم بن سکیں۔