ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی اور موجودہ عالمی نظام کا خاتمہ
دوسری جنگ عظیم کے بعد جو عالمی نظم قائم ہوا، وہ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور یورپ کے زیر اثر تھا۔ اس نظام میں اقوام متحدہ، عالمی بینک، اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسی تنظیمیں مغربی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائی گئی تھیں۔ اس دور میں مغرب نے خود کو دنیا کا پولیس مین قرار دیا اور اپنی فوجی، معاشی اور ثقافتی بالادستی کو دنیا بھر میں پھیلایا۔ لیکن اس صدی کے آغاز سے یہ نظام بتدریج کمزور ہوا اور اب ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں اس کا خاتمہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
اس تبدیلی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مغرب نے اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے جو حکمت عملی اپنائی، وہ ناکام ہو گئی۔ مغربی ممالک نے دنیا کو اپنے معاشی نظام میں اس طرح جکڑا کہ ترقی پذیر ممالک ہمیشہ ان کے محتاج رہیں۔ لیکن چین، ہندوستان، انڈونیشیا اور دیگر ایشیائی ممالک نے ٹیکنالوجی اور صنعت کے میدان میں ترقی کر کے اس نظام کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ چین نے اپنی مینوفیکچرنگ اور ٹیکنالوجی کی طاقت سے عالمی معیشت میں اہم مقام حاصل کیا، جبکہ ہندوستان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کی صنعت میں اپنا لوہا منوایا۔ ان ممالک نے مغرب کی اجارہ داری کو توڑتے ہوئے اپنے معاشی راستے خود بنائے۔
مغربی ممالک کی ایک اور بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے عراق، افغانستان اور دیگر ممالک میں فوجی مداخلت کر کے اپنی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کی، لیکن یہ جنگیں ان کے لیے مالی اور اخلاقی طور پر تباہ کن ثابت ہوئیں۔ امریکہ کا عراق پر حملہ اور افغانستان میں طویل جنگ نے نہ صرف امریکہ کو معاشی طور پر کمزور کیا بلکہ دنیا بھر میں اس کی عزت کو بھی نقصان پہنچا۔ اس کے برعکس چین نے اپنی ترقی کا راستہ تجارت اور اقتصادی شراکت داری سے بنایا، جس نے اسے عالمی سطح پر ایک مضبوط کردار دیا۔
عالمی مالیاتی بحران 2008 نے بھی مغربی معیشتوں کی کمزوری کو واضح کر دیا۔ یہ بحران امریکہ اور یورپ کی لالچ اور غیر ذمہ دارانہ معاشی پالیسیوں کا نتیجہ تھا، جس نے دنیا کو بتا دیا کہ مغربی نظام بھی ناقص ہے۔ اس کے بعد سے ترقی پذیر ممالک نے اپنے معاشی نظام کو زیادہ مستحکم بنانے کی کوششیں تیز کر دیں۔ چین نے اپنی کرنسی اور بینکاری نظام کو عالمی سطح پر متعارف کرانا شروع کیا، جبکہ روس اور دیگر ممالک نے ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ کو "پہلے امریکہ” کے نعرے کے تحت عالمی معاملات سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے عالمی تجارتی تنظیم کو کمزور کیا، اقوام متحدہ کو نظر انداز کیا، اور اتحادی ممالک سے بھی دوری اختیار کی۔ اس پالیسی نے مغربی اتحاد میں دراڑیں پیدا کر دیں اور دنیا بھر میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو کمزور کیا۔ اب چین اور روس جیسی طاقتیں اس خلا کو پر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں۔
مغرب کی ثقافتی بالادستی بھی اب ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ہالی وڈ اور مغربی میڈیا کا اثر کم ہو رہا ہے، جبکہ بالی وڈ، کورین ڈرامے، اور چینی ٹیکنالوجی کی ثقافت دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کی علامت ہے کہ اب صرف مغرب ہی ثقافتی رجحانات طے نہیں کرتا بلکہ مشرق بھی اس میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اس تمام صورتحال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب دنیا ایک کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں کوئی ایک طاقت دنیا پر حکومت نہیں کرے گی۔ چین، روس، ہندوستان، اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں اپنا اثر بڑھا رہی ہیں، جبکہ مغرب اپنی داخلی تقسیم اور معاشی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ یہ تبدیلی تیز ہوتی جا رہی ہے، اور آنے والے سالوں میں عالمی طاقت کا نیا توازن ہمیں واضح طور پر نظر آئے گا۔