BusinessLatest

استحکام کی طرف بڑھتی ہوئی پاکستانی معیشت

یقیناً، پاکستان کی معیشت حالیہ برسوں میں جس بحران سے گزری ہے، وہ ایک سخت اور کٹھن مرحلہ تھا۔ مالی سال 2021-22 میں ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر تھا۔ اندرونی اور بیرونی میڈیا نے نہ صرف پاکستان کی معاشی بدحالی کو نمایاں کیا بلکہ کچھ نے تو یہاں تک دعویٰ کیا کہ پاکستان درحقیقت ڈیفالٹ کر چکا ہے۔ اس عرصے کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے تھے، درآمدات کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا اور ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اس ساری صورتحال کی ایک بڑی وجہ تجارتی خسارہ تھا جو اربوں ڈالر تک جا پہنچا تھا۔ پاکستان کی درآمدات بہت زیادہ تھیں جبکہ برآمدات اور ترسیلات زر اس کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔

سیاسی منظرنامہ بھی اس بحران کو مزید سنگین بنا رہا تھا۔ ملک میں سیاسی بے یقینی، حکومتوں کی تبدیلی، اور عوامی احتجاج کی فضا نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو شدید متاثر کیا۔ تاہم ان تمام مشکلات کے باوجود سول اور عسکری قیادت نے مل کر ملکی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی اور یہ مشترکہ کاوشیں کسی حد تک بارآور ثابت ہوئیں۔ اس مشکل وقت میں پاکستان کو دوست ممالک کی جانب سے بھی قابلِ ذکر مدد ملی جس نے معیشت کو دیوالیہ پن سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، ترکی، امریکہ اور دیگر دوست ممالک نے پاکستان کو قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ، مالی امداد، ڈیپازٹس اور تیل کی موخر ادائیگی کی سہولتیں فراہم کیں۔ خاص طور پر چین اور سعودی عرب نے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے اسٹیٹ بینک میں اربوں ڈالر کے ڈیپازٹس رکھوائے، جبکہ متحدہ عرب امارات اور ترکی نے بھی فوری مالی سپورٹ دی۔ امریکہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مثبت کردار ادا کیا تاکہ پاکستان کو قرض پروگرام کی قسطیں جاری کی جا سکیں۔

اگرچہ تجارتی خسارہ اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، لیکن اس میں نمایاں کمی آئی ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر نے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری جانب درآمدات میں کمی کی کوششیں کی گئی ہیں، تاہم قرضوں کی ادائیگی اور مہنگی توانائی کی درآمد کی وجہ سے معاشی دباؤ اب بھی قائم ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر معاہدے کرنے پڑے۔

آئی ایم ایف کی شرائط سخت ترین ہیں۔ ان شرائط کی وجہ سے حکومت عوام کو ریلیف دینے سے قاصر ہے۔ مہنگائی میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی، اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ آئی ایم ایف حکومت کو نہ صرف سبسڈی دینے سے روک رہا ہے بلکہ ترقیاتی منصوبوں پر بھی قدغن لگا رہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار جاری ہے، جو کہ ایک طویل مدتی حل نہیں ہے۔

اگرچہ بین الاقوامی میڈیا اب پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری کی خبریں دے رہا ہے، اور بلومبرگ جیسے ادارے بھی پاکستان کی بحالی کو سراہ رہے ہیں، لیکن اصل کامیابی اس وقت ہوگی جب پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط سے آزاد ہو کر خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا۔ پاکستان کی معیشت میں بہتری کی رفتار اگرچہ سست ہے لیکن تسلسل سے جاری ہے۔ یہ تسلسل تبھی برقرار رہ سکتا ہے جب ہم اپنی توانائی کی ضروریات سستی بجلی سے پوری کریں، پاور سیکٹر میں اصلاحات لائیں اور گردشی قرضے ختم کریں۔ اسی طرح روپے کی قدر بھی اپنی اصل سطح پر آنی چاہیے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق ڈالر کی قیمت دو سو روپے کے قریب ہونی چاہیے لیکن مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کے باعث روپیہ مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔

ملک میں سیاسی استحکام اور امن و امان کی صورتحال بھی معاشی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ دہشت گردی، انتہاپسندی اور سیاسی کشمکش نے بیرونی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ جب تک پاکستان اندرونی طور پر پرامن اور مستحکم نہیں ہوگا، بیرونی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں۔ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے تمام ادارے مل کر کام کریں، معیشت کو خود کفیل بنایا جائے، صنعتی پیداوار کو فروغ دیا جائے، اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

پاکستان کے پاس بے پناہ صلاحیتیں اور وسائل موجود ہیں۔ زرعی شعبہ ہو، معدنیات ہوں یا انسانی وسائل، ہر میدان میں ترقی کے امکانات موجود ہیں۔ ضرورت صرف درست پالیسیوں، سیاسی اتفاق رائے، شفافیت، اور دیانتداری سے کام لینے کی ہے۔ اگر ہم نے اس سمت میں سنجیدگی سے قدم اٹھائے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان نہ صرف قرضوں سے نجات حاصل کرے گا بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگا۔