ایران اور پاکستان کے درمیان معاشی تعاون: خطے کے استحکام اور خوشحالی کا راستہ
ایران اور پاکستان نے حال ہی میں معاشی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے جس کا ہدف باہمی تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جانا ہے۔ اگر یہ عزم پورا ہوا تو دونوں ممالک کو خاص طور پر اپنے معاشی اور سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے میں نمایاں فائدہ ہوگا۔ تجارت، سیاسی تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کو گہرا کر کے یہ ممالک نہ صرف اپنی سرحدوں کے اندر بلکہ پورے خطے میں استحکام اور ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
پاکستان کو فی الوقت ادائیگیوں کے توازن میں دس سے پندرہ ارب ڈالر کا خسارہ درپیش ہے جو ایران کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات خاصی حد تک پورا ہو سکتا ہے۔ علاقائی معاشی تعاون نے عالمی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے جیسا کہ یو ایس-میکسیکو-کینیڈا معاہدہ (NAFTA) اور یورپی یونین (EU) کی کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ اتحاد مشترکہ پیداوار، سرمایہ کاری اور مارکیٹ تک رسائی کو آسان بنا کر خوشحالی کو فروغ دیتے ہیں۔ EU کی ایئربس اس کی ایک بڑی مثال ہے۔
پاکستان کو علاقائی تعاون برائے ترقی (RCD) کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی غور کرنا چاہیے جو 1960 کی دہائی میں ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان ایک معاشی شراکت داری تھی۔ جبکہ ترکی نے حالیہ دہائیوں میں اپنی معیشت کو کامیابی سے جدید بنایا ہے، ایران اور پاکستان دونوں معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں جس کی ایک بڑی وجہ اندرونی ترقی پر توجہ دینے کے بجائے بیرونی تنازعات میں ملوث ہونا ہے۔
1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد سے پاکستان افغان معاملات میں گہرا الجھا رہا جبکہ ایران نے مشرق وسطیٰ میں اپنے انقلابی نظریات کو برآمد کرنے کی کوششیں کیں۔ ان پالیسیوں کے سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ افغانستان میں طویل تنازعہ پاکستان میں پھیل گیا جس نے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں سلامتی کے چیلنجز کو بڑھا دیا۔
اسی طرح یمن، شام، عراق اور لبنان میں ایران کی پراکسی جنگوں نے خطے میں عدم استحکام کو ہوا دی ہے جس کے سنگین انسانی اور معاشی نتائج نکلے ہیں۔ دونوں ممالک کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عسکریت پسند گروہوں کی مسلسل حمایت طویل مدتی معاشی ترقی اور علاقائی سلامتی کو نقصان پہنچاتی ہے۔
تنازعات کو ہوا دینے کے بجائے ایران اور پاکستان کو معاشی سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے جس میں سرحد پار سرمایہ کاری، توانائی کی شراکت داری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی شامل ہے۔ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن جیسے بہتر تجارتی راستے اور سرحدی مارکیٹوں کے توسیع سے نئے معاشی مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں، زراعت، کان کنی اور ٹیکنالوجی میں مشترکہ منصوبے روزگار اور صنعتی ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
ایران اور پاکستان کے درمیان مستحکم اور تعاون پر مبنی تعلقات نہ صرف ان کی معیشتوں کو فائدہ پہنچائیں گے بلکہ خطے کی وسیع تر خوشحالی میں بھی کردار ادا کریں گے۔ جغرافیائی تصادم کے بجائے معاشی تعاون پر وسائل کو مرکوز کر کے دونوں ممالک لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں جو امن اور پائیدار ترقی کو فروغ دے گا۔
ایران-پاکستان معاشی تعاون کی صلاحیت بہت زیادہ ہے لیکن اس کو حقیقت بنانے کے لیے ترجیحات میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں جغرافیاتی مقابلہ بازی کے بجائے مشترکہ معاشی ترقی پر توجہ دی جائے۔ جبکہ دونوں ممالک مالیاتی اور سلامتی کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، تجارت، سرمایہ کاری اور علاقائی استحکام پر نئی توجہ ایک قابل عمل راستہ پیش کرتی ہے۔ عالمی برادری کو بھی اس تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ ایک زیادہ خوشحال اور پرامن جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے عالمی فوائد دور رس ہوں گے۔عملیت پسندی کا وقت آ گیا ہے۔ تنازعہ کے بجائے معاشی تعاون کو اپنا کر ایران اور پاکستان اپنے دو طرفہ تعلقات کو علاقائی ترقی کی بنیاد بنا سکتے ہیں۔