پاکستان میں گندم پیدا کرنے والے کسان پریشان
گندم کا مسئلہ خاص گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ اور کسان اب تک اپنی فصل بیچنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ گندم کی قیمت پاکستان میں دنیا کےمقابلے میں زیادہ ہے اور ا،س کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ پاکستان میں زرعی شعبہ پر بھی سبسڈی کم کر دی گئی ہے۔ پاکستان میں کسان کو باقی دنیا کی نسبت مہنگی کھاد، مہنگا بیج اور مہنگی ادویات ملتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کسان بجلی بہت مہنگے داموں ملتی ہے۔ پاکستان میں ٹریکٹر اور دوسری زرعی مشینیں بھی مہنگی ہیں جو کسان کی پیداواری لاگت کوبہت زیادہ بڑھا دیتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں دیگر ممالک کی پیداواری لاگت بہت کم ہے اِس کے علاوہ ان ممالک میں فی ایکڑ پیداوار بھی پاکستان سے پندرہ سے پچیس فیصد زیادہ ہے۔
یہ مسئلہ اِس لئیے بھی گھمبیر ہو گیا کہ نگران حکومت نے اپنے دور میں 31 لاکھ ٹن سستی گندم یوکرائن سے منگو ا کر بیچ دی جب کہ پاکستان کی گندم گوداموں میں پڑی رہے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کے 40 لاکھ ٹن گندم ابھی بھی حکومتی گودام میں پڑی ہوئی ہے اور نئی فصل اب کھیتوں اور کھلیانوں میں خراب ہورہی ہے۔ گندم انتہائی غیردانشمندانہ فیصلہ تھا جس سے زرمبادلہ بھی ضائع ہوا۔ ملکی وسائل کو بھی نقصان پہنچا اور اب کسان کی گندم خریدنے کے لئے نہ تو حکومت کے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی ان کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت گندم کی مد میں بھی گردشی قرضے میں پھنسی ہوئی ہے وہ مہنگی گندم خریدتی ہے اور سستی بیچ دیتی ہے۔ا،س مدئلہ کا حل صرف نیک نیتی سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے آڑھتی اِس صورت حال کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہر سال یا تو گندم برآمد کر کے پیسہ بنایا جاتا ہے یا پھر اگر بین الاقوامی منڈی میں گندم سستی ہو تو درآمد کر لی جاتی ہے ان دونوں صورتوں میں بڑا سرمایہ دار اور با اثر حکومتی افراد تو پیسہ بنا لیتے ہیں مگر ملک اور کسان دونوں کو نقصان ہوتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کسانوں کے استحصال کو ختم کیا جائے۔ پیداواری لاگت کو کم کیا جائے اور گندم کو ذخیرہ کرنے کا ایک مناسب نظام بنایا جائے تاکہ کسان کو اپنی محنت کا مناسب ثمر مناسب وقت پر مل سکے۔